نوجوان اور قبر؟

لوگوں نے ایک نوجوان کو قبر میں اتر کر اکیلے حافظ سلمان صاحب کو قبر میں اتارتے دیکھا تو پوچھا یہ کون ہے؟
لوگوں نے جنازے میں چارپائی پر بازو پھیلائے حافظ صاحب کے گرد حصار بنائے دیکھا تو پوچھا یہ نوجوان کون ہے؟
لوگوں نے جنازے پر چارپائی کو ایک سیکنڈ کے لیے چھوڑنے کو انکاری نوجوان دیکھا تو پوچھا یہ کون ہے؟
لوگوں نے دھاڑیں مار کر روتے ہوئے اس نوجوان کو دیکھا تو پوچھا کہ یہ کون ہے؟
ہسپتال میں ابو جان کے اللہ کے حضور پہنچنے کی خبر کے بعد فرش پر بے جان شخص کو پڑے دیکھا تو پوچھا یہ کون ہے؟
لوگوں نے حافظ صاحب کے لیے ہر ایک سے لڑ جاتے ہوئے اس نوجوان کو دیکھا تو پوچھا یہ کون ہے؟
لوگوں نے حافظ سلمان صاحب کی زندگی میں حافظ صاحب کو اس نوجوان کا ماتھا چومتے، گلے لگاتے دیکھا تو پوچھا یہ کون ہے؟
آخری سانسیں لیتے حافظ صاحب کی زبان سے اس نوجوان کا نام لے کر بار بار بلاتے دیکھا تو پوچھا یہ کون ہے؟

جب بھی مجھ سے کسی نے یہ سوال پوچھا کہ یہ نوجوان کون ہے تو میں نے جواب دیا کہ یہ حسان اور جبران سے بڑھ کر حافظ صاحب کے بیٹے ہیں۔
آپ ان سے پوچھیں گے کہ آپ کون ہیں  
تو وہ کہیں گے میں بابا جی کا خادم ہوں۔

بابا جی کے اس بیٹے کا نام معظم علی ہے۔
وہ ۱۸-۲۰ سال ابو کے ساتھ بالکل سائے کی طرح رہے۔
جب ابو کی طبیعت خراب ہوئی تو ہم نے ہسپتال کے لیے نکلتے ہوئے معظم بھائی کو کال کی اور وہ دو گھنٹوں میں اسلام آباد سے لاہور جناح ہسپتال پہنچے۔
کوئی لمحہ ایسا نہیں جب انہوں نے اپنے بابا جی کو اکیلا چھوڑا ہو۔

جو بات کوئی اور نہیں کہہ سکتا تھا وہ باتیں معظم بھائی ابو سے کہہ لیتے تھے۔
کبھی کبھی سیکھنے کی غرض سے جان بوجھ کر ابو سے بحث کرتے۔
مستیاں کرتے۔
ابو کو باقائدہ طور پر چھیڑتے۔ 🥲

ابو کا اگر ان سے کچھ دیر رابطہ نہ ہو پاتا تو پریشان ہو جاتے کہ ایسا ہو نہیں سکتا کہ معظم مجھے ریسپانڈ نہ کرے۔

جب آخری دن بھی سی ٹی سکین کے لیے لے کر گئے تو ڈاکٹر کہتے رہے کہ آپ باہر چلے جائیں اس سے شعائیں نکلتی ہیں جو صحت کے لیے ٹھیک نہیں پر ابو نے معظم بھائی کا ہاتھ پکڑے رکھا اور کہا کہ نہیں تم نے باہر نہیں جانا۔

ہم دونوں بھائی تو جمعیت میں دن رات مصروف ہوتے تھے۔
جس نے واقعی بیٹا ہونے کا حق ادا کیا وہ معظم بھائی تھے۔

ایک بار جمعیت کے کسی معاملے میں ابو نے جمعیت کے ذمہ داران کو پولیس کے چنگل سے نکال کر ریسکیو کرنا چاہا تو پولیس ابو کے ساتھ بھی الجھ گئی بلکہ ہاتھا پائی شروع ہو گئی۔
ابو نے جمعیت کے بچے حوالے کرنے سے انکار کیا تو انہوں نے ابو کو بھی گرفتار کرنے کی کوشش کی۔
معظم بھائی نے اس وقت اپنے بابا جی کو اس طرح سے پکڑا ہوا تھا ک ۲۰-۲۵ پولیس والے اس شیر سے اس کے بابا جی کو چھڑا کر گاڑی میں نہ بٹھا سکے۔
بہت مار کھائی،کپڑے پھٹ گئے لیکن بابا جی کو ان سے کوئی الگ نہ کر سکا۔

معظم بھائی کے ابو جان جسٹس شاہنواز صاحب ساری ذمہ داریاں ان کی سپرد کر کے اپنے مالک سے ملاقات کے لیے چلے گئے جبکہ اس وقت معظم بھائی کی عمر صرف ۱۸ سال تھی۔
معظم بھائی نے ابو کا سارا پیار اپنے بابا جی کو دے دیا۔
میں سب لکھ رہا ہوں اور صرف میں جانتا ہوں کہ کس دل سے لکھ رہا ہوں۔

میری بہت شدید خواہش تھی کہ اللہ جی کے گھر میں ابو کے ہمراہ جا سکوں۔
اللہ کا گھر ہو اور میں نے ابو کا ہاتھ تھاما ہو، روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہو اور میں ابو کے ساتھ ہوں۔
مگر یہ سعادت بھی بابا جی کی خدمت کی طرح معظم بھائی کے ہی نصیب میں تھی۔
وہ عمرے پر ابو کے ساتھ تھے۔
ہر ہر لمحے کو ابو سے چوری چھپے کیمرے میں قید کرتے رہے۔
اور اس موقع پر بھی خدمت کا موقع انہیں کو میسر آیا۔
محبت،ادب،اطاعت،اخوت،مہمان نوازی،رواداری،خلوص! ان سب کی اگر کوئی تصویر ہے تو معظم بھائی ہیں۔

اللہ سے میری دعا ہے کہ اللہ جی معظم بھائی کو دنیا میں بھی عزت،وقار،عروج و ترقی دیں اور آخرت میں جنت میں اپنے بابا جی کے ہمراہ نبی مہربان صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں جگہ عطاء فرمائیں۔
آمین