یوسف علیہ السلام کو مصر کے بازار میں فروخت کیا جارہا تھا

 

سنانے والے ایک قصّہ سناتے ہیں، کہ جب سیدنا یوسف علیہ السلام کو مصر کے بازار میں فروخت کیا جارہا تھا تو ایک نہایت بوڑھی عورت اپنی چکّی لے کر خریدنے کے خواہشمند افراد کے ساتھ آ کھڑی ہوئی تھی۔ کسی نے اس سے پوچھا

"اس پر تو اتنی بڑی بڑی بولی لگ رہی ہے. یہاں تمہاری چکی کی کیا حیثیت؟ کیا تمہیں لگتا ہے اس چکی کے عوض تم یوسف کو خرید پاؤ گی؟"

تو اس نے جواب دیا

"میں جانتی ہوں میں یوسف کو نہیں خرید سکتی. میری اتنی حیثیت نہیں ہے. لیکن کم سے کم یوسف کے خریداروں میں میرا نام تو آئے گا"


آج جب لوگ حرمتِ رسولﷺ کی ناموس کے لیے تڑپنے والوں، رونے والوں اور بولنے یا لکھنے والوں پر طنز کررہے ہیں تو میرے ذہن میں یہ قصّہ گردش کررہا ہے۔

کہنے والے کہتے ہیں کہ آپ کے دکھی ہونے، محبت کے دعوے کرنے سے کیا ہوجائے گا؟ آپ کی زندگی دنیاوی کاموں میں مشغول گزر رہی ہے، ایسے کسی موقعے پر آنسو بہالینے سے کیا فائدہ؟ آپ کی صفوں میں اتحاد تو ہے نہیں!

اور کوئی گستاخی کرے بھی تو شانِ کریمیﷺ میں کیا فرق آجائے گا؟ جب ان کی شان میں کوئی کمی نہیں آئے گی، آپ کے شور مچانے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا تو پھر یہ سارا واویلا، یہ لکھنا بولنا چہ معنی دارد!!!

وہ یہ نہیں سمجھتے کہ ہم اپنی بے بسی پر روتے ہیں۔

وہ یہ نہیں جانتے کہ ہم تو اپنا نام ناموسِ رسولﷺ کی پرواہ کرنے والوں میں لکھوانا چاہ رہے ہیں۔

ہمیں تو تذکرہ کرنا ہے، ہمیں بتانا ہے ہمیں پرواہ ہے!!!

ہمیں فکر ہے!!!

ہمیں محبت ہے!!!

ظالم نہیں رکیں گے، ان کو فرق نہیں پڑرہا تو کیا ہم رک جائیں؟ تکلیف دہ بات تو یہ ہے کہ ہمارے لوگ گستاخیوں سے Immune ہوتے جارہے ہیں۔ جب انہیں لگتا ہے ہم کچھ نہیں کرسکتے، تو وہ اظہار کرنا ہی چھوڑ دیتے ہیں۔ مجھے آنے والے وقت سے ڈر لگ رہا ہے جب یہ روز کا معمول بن جائے گا اور مسلمان بے چین ہونا بھی چھوڑ دیں گے۔

ایسا وقت نہ آئے اس کے لیے ہمیں آج کوشش کرنی ہوگی۔ ہمیں بولنا ہوگا، تذکرہ کرنا ہوگا تاکہ ہمارے ارد گرد کے لوگ اس موضوع کی اہمیت سے آگاہ رہیں۔

ہمیں بے پناہ محبت کا اظہار کرنا ہوگا تاکہ ہمارے بچے سمجھ جائیں، ایسی کوئی نازیبا حرکت برداشت نہیں کرنی۔ احتجاج کرنا ہے، بولنا ہے، اس کے خلاف لکھنا ہے۔ جتنی استطاعت ہے اتنی کوشش ہر صورت میں کرنی ہے۔ یہ سوچ کر خاموش نہیں ہوجانا کہ ہمارے کچھ بھی کرنے سے کیا ہوجائے گا؟ آپ کو نتیجے پر نہیں اپنے عمل پر نظر رکھنی ہے۔